تحقیق فی علم التفسیر

تحقیق فی علم التفسیر۔      


 امام جلال الدین سیوطی ؒ الاتقان میں لکھتے ہیں ، کہ علم تفسیر کیلئے علوم عربیہ اورعلوم بلاغت کے علاوہ (۳۰۰)علوم سے واقفیت کی ضرورت ہے ۔


علم تفسیر کی تعریف :

تفسیرجوباب تفعیل سے مصدر ہے، یہ فسر سے ماخوذ ہے، اور مجرد میں باب نصر اور ضرب سے ہے، اس کے معنی لغت میں ہیں :کشف وبیان، کسی چیز کو کھولنا واضح کرنا، اور اصطلاح میں تفسیر سے مراد وہ علم جس میں نظم قرآن اور اسکے معانی ومطالب سے بحث کی جاتی ہے ،اور تفسیر کو تاویل بھی کہاجاتاہے، اور بعض علماء کرام دونوں میں فرق کرتے ہیں ۔

تاویل یہ’’ اَوْلٌ‘‘ سے ماخوذ ہے اس کے معنی لغت میں رجوع کرنا اور اصطلاح میں ایک سے زائد محتملات کو سباق وسیاق یا کسی دلیل سے ترجیح دینا ۔

امام ابوعبیدہ کہتے ہیںکہ تفسیر وتاویل میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں کہ تفسیر وتاویل الگ الگ ہیں ۔

علماء کرام دونوں میںجو فرق لکھتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :

(۱) تفسیرمفردات کے لئے ہیں یعنی ایک ایک لفظ کی الگ الگ تشریح تاویل مجموعی پورے جملے کی تشریح ۔

(۲) تفسیرمیں معنی کا تعین قطعی ہوتا ہے تاویل میں متعدد محتملات وتشریحات میں سے کسی ایک کو دلیل سے ترجیح دیناہے۔

(۳) تفسیر کا تعلق روایت سے ہے یعنی تفسیر ماثور ہوتی ہے اور تاویل کا تعلق ان واردات واشارات سے ہے جو سالکین وعارفین کے قلوب پر وارد ہیں ۔

(۴) تفسیرالفاظ اور ان کے معانی ومفاہم بیان کرنا اورتاویل اس مفہوم سے نتائج اخذ کرنا۔

(۵) تفسیرظاہری معنی کو بیان کرنا اورتاویل اصل مرادکی تشریح کرنا ۔

علم تفسیر کا موضوع :

علم تفسیر کا موضوع کلام اللہ تعالی ہے ۔

علم تفسیر کی غرض وغایت:

معانی قرآن کو معلوم کرکے اس پر عمل کرنا تاکہ سعادت دارین حاصل ہو ۔

علم تفسیر کا مرتبہ:

علم تفسیر، علوم کا سردار ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے کلام کی مراد سے بحث کیجاتی ۔حدیث شریف میں ہے ۔ فضل کلام اللہ علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ۔ (ترمذی ) اللہ کے کلام کی فضیلت مابقی کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے ۔

علم تفسیر کافائدہ :

علم تفسیر سے قرآن مجید کے معانی ومطالب اور احکام شریعت کے علاوہ انسانی تمدن وترقی کے بے شمار علوم اور کائنات کے حقائق ودقائق اور اسرار معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے اس میںسارے علوم وفنون ودیعت کئے ہیں ہر نئے دور کے ساتھ ان کا انکشا ف ہوجاتا ہے


ارشاد خداوندی ہے: مَافَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیئٍ(انعام: ۳۸)ہم نے الکتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں کی ہے اور ارشاد ہے وَلَا حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَایَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُبِیْنْ (انعام: ۵۹)اور نہ کوئی دانہ زمین کی تاریکیوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک مگر وہ کتاب مبین میںہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کا تعارف سب سے پہلے الکتاب سے فرمایا ہے ،کتاب وہ دفتر ہے جس میں کوئی چیزلکھی اور جمع کی جاتی ہے چونکہ یہ کتاب ہدایت ہے اس لئے اللہ تعالی نے اس میںتمام علوم وفنون کو جمع کردیا ہے ۔

چنانچہ امام جلا ل الدین سیوطی ؒنے اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں نقل کیا ہے کہ قرآن مجید کے حروف میں (۳۰۰۰۰۰)تین لاکھ علوم ہیں اور اسکی نظم وترکیب اور جملوں میں بے حساب ہیں جس کا اندازہ کرنا دشوار ہے یہ قرآن مجید کا اعجازہے کہ صرف (۶۶۶۶)آیات کریمہ میں خالق سے مخلوق تک ساری چھوٹی بڑی چیزیں بیان کردی گئی ہیں، اور قرآن مجید معجز کلام ہے ۔